Tuesday, December 27, 2016

عوام تیار ہو جائیں، جاتی امراء کی بادشاہت ختم کرنے کیلئے نکل رہا ہوں: بلاول بھٹو

گڑھی خدا بخش میں شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی برسی کے موقع پر جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے پی پی پی کے چیئرمین نے کہا کہ میاں صاحب آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا وزیر حکیم اللہ محسود پر آنسو بہائے اور میں چپ رہوں، آپ کا بھائی دہشت گردوں سے اپیلیں کرتا پھرے کہ ہمیں نہ ماروں اور میں چپ رہوں، ملک عالمی تنہائی میں چلا جائے اور میں چپ رہوں، آپ سی پیک متنازعہ بنا دیں اور میں چپ رہوں، آپ مودی سے دوستی کریں اور میں چپ رہوں، نہیں میں چپ نہیں رہوں گا۔
لاڑکانہ: پاکستان پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا ہے کہ کارکن ایک اور لڑائی کے لیے تیار ہوجائیں کیونکہ ہمیں سیاسی لانگ مارچ کی تیاری شروع کرنی ہے۔اپنے مطالبات منوانے کیلئے پورے پاکستان کا دورہ کروں گا اور ہر صوبے اور شہر میں جاﺅں گا، عوام تیار ہو جائیں کیونکہ غاصبوں کا قبضہ اور جاتی امراء کی بادشاہت ختم کرنے کیلئے نکل رہا ہوں، پاکستان میں کسی سے پوچھیں کہ وزیراعظم کون ہے تو کہا جاتا ہے ”پانامہ شریف“، میاں نواز شریف کے تو اسکینڈل ہی اسکینڈل ہیں اور ان کے ذاتی مفاد کے باعث پاکستان کے مفادات خطرے میں ہیں۔ تفصیلات کے مطابق گڑھی خدا بخش میں جلسہ عام سے خطاب کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ اس دنیا میں روز لاکھوں لوگ پیدا ہوتے ہیں اور لاکھوں لوگ جاتے ہیں مگر کچھ لوگ صرف پیدا ہوتے ہیں اور مرا نہیں کرتے، ان کی سوچ، ان کی فکر، ان کی بہادری، کارنامے اور جرات زندہ رہتی ہے، اس لئے ہم کہتے ہیں کہ ذوالفقار علی بھٹو ناصرف تاریخ میں زندہ ہیں بلکہ لوگوں کے دلوں میں آج بھی زندہ ہیں، وہ مر کر بھی امر ہو گئے ہیں اور کچھ لوگ زندہ رہ کر بھی مردہ لاشوں کی طرح ہوتے ہیں، ہم اپنے شہیدوں کے دن انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کیلئے مناتے ہیں اور ان سے عہد کرنے کیلئے مناتے ہیں کہ ہم ان کی سوچ فکر اور ویژن پر عمل کریں گے، لیکن کچھ لوگ ہمیں ماضی پرست کہتے ہیں، میں آج آپ سے سوال کرتا ہوں کیا پاکستان پیپلز پارٹی جن مسائل کے حل کیلئے بنائی گئی تھی کیا وہ حل ہوگئے ہیں؟ کیا شہید ذوالفقار علی بھٹو اور شہید محترمہ بے نظیر بھٹو نے جن مقصد کیلئے جانوں کے نذرانے پیش کئے تھے، کیا وہ حاصل کر لئے گئے ہیں ؟ شہید ذوالفقار علی بھٹو، شہید بینظیر بھٹو اور پاکستان پیپلز پارٹی آج کے عہد، آج کی سیاست، آج کی معیشت اور مسائل کے حل سے اتنی ہی مطابقت رکھتے ہیں جتنی اس وقت رکھتے تھے۔
انہوں نے کہا کہ ضیاء الحق نے جب ذوالفقار علی بھٹو کو گرفتار کیا تو ان کی 24 سالہ بیٹی بینظیر بھٹو شہید نے اپنے باپ، اپنے ملک، جمہویت اور لوگوں کی آس و امید کو بچانے نکلی، ان کو سکھر جیل میں سخت گرمی میں قید تنہائی میں رکھا گیا، کہ ایک نہتی سی لڑکی، ایک نہتی سی لڑکی گر جائے گی، ٹوٹ جائے گی، ڈر جائے گی، مگر وہ لڑتی رہی، لڑتی رہی اور ثابت کر دیا کہ ”ڈرتے ہیں بندوقوں والے ایک نہتی لڑکی سے“ یوں تو انسانی تاریخ بہادر خواتین کی داستانوں سے بھری پڑی ہے مگر جس کے باپ کو پھانسی دیدی جائے، جس کے بھائیوں کو قتل کر دیا جائے، جس کی ماں کو لاٹھیاں مار مار کر زخمی کر دیا جائے، جس کے خاوند کو گیارہ سال جیل میں رکھا جائے، ان کے ساتھیوں اور جانثاروں کو پھانسی دیدی جائے، سینکڑوں جیالوں کو کوڑے مارے جائیں، ہزاروں کارکنوں کو جیل میں رکھا جائے، وہ ہر ظلم کے سامنے پہاڑ کی طرح ڈٹی رہی ہو اور اس نے ہار نہ مانی ہو، اپنے ملک کے مظلوموں کا ساتھ نہ چھوڑا ہو، اپنے لوگوں کی امید نہ چھوڑی ہو، وہ صرف اور صرف اسلامی دنیا کی پہلی منتخب خاتون وزیراعظم شہید بینظیر بھٹو ہی ہو سکتی ہیں۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ ان کی 35 سالہ سیاسی زندگی میں صرف 5 سال اقتدار تھا اور 30 سال لڑائی تھی اور جدوجہد تھی لیکن انہوں نے ہار نہیں مانی، وہ کبھی ضیاء الحق کے خلاف لڑیں تو کبھی ان کی باقیات کے خلاف، اور کبھی ان کی ذہنیت کے خلاف لڑیں۔ یاد ہے کہ جیل میں بی بی شہید کی 25 ویں سالگرہ پر شہید بھٹو نے اپنی پیاری بیٹی سے کہا تھا، ”شہید بی بی بینظیر اپنا ہاتھ آگے کرو، میں آج آپ کو ایک بہترین تحفہ دینا چاہتا ہوں، بی بی نے ہاتھ آگے کیا تو ذوالفقار علی بھٹو نے کہا کہ آج میں آپ کے ہاتھ میں اس ملک کے غریبوں کا ہاتھ تحفے میں دیتا ہوں، تم کبھی بھی ان کو نہیں چھوڑنا، یہ کبھی بھی تمہیں نہیں چھوڑیں گے اور پھر دنیا نے دیکھا کہ وہ زندہ رہیں تو عوام کیلئے، شہید ہوئیں تو عوام کیلئے، 18 اکتوبر کے حملے کے بعد کسی کو کوئی شک رہ گیا تھا کہ یہ شہید محترمہ بے نظیر بھٹو کو نہیں مارنا چاہتے تھے ؟ مگر وہ بہادر باپ کی بہادر بیٹی تھی، ڈری نہیں، 72 دن موت ان کے آگے آگے بھاگ رہی تھی اور وہ موت کے پیچھے پیچھے بھاگ رہی تھیں، آخر لڑتے لڑتے جام شہادت نوش کیا لیکن ہار نہیں مانی۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ میں آپ سب سے پوچھتا ہوں کیا بی بی شہید نے جس سوچ کے خلاف جنگ لڑی تھی، اس سے مکمل چھٹکارا مل گیا ہے؟ آج بھی اسی کی سیاہ وراثت یعنی تخت جاتی امراء کی بادشاہت ہے، جن دہشت گردوں کے خلاف انہوں نے لڑائی لڑی کیا وہ ختم ہوگئے؟ بالکل نہیں، آج بھی ان کو پناہ مل رہی ہے، آج بھی ہمارے بچے، بچیاں، عورتیں، مرد اور سیکیورٹی فورسز کے جوان ان کے ہاتھوں شہید ہو رہے ہیں، اس لئے میں کہتا ہوں کہ بی بی شہید کے ویژن کی جتنی ضرورت کل تھی اس سے بڑھ کر آج ہے، میرے ملک کے عظیم محنت کشوں! محترمہ کی شہادت کے بعد اس ملک کو بہت ساری مشکلات نے گھیرا تھا، ایک طرف ملک ٹوٹنے کے قریب تھا اور دوسری جانب پارٹی برباد ہونے لگی، صدرزرداری نے ایک ہی نعرہ کے ساتھ دونوں کو بچایا، کھپے کھپے، پاکستان کھپے۔ میرے عظیم پاکستانیو! آپ نے اب پارٹی کا پرچم مجھے بھی دیا ہے اور مجھے پتہ ہے کہ یہ آسان نہیں ہے، یہ پھولوں کی سیج نہیں ہے، مجھے میری اور پارٹی کی مشکلات کا بھی علم ہے اور آج کے حالات کا بھی ادراک ہے، مجھے پاکستان کے گہرے مسائل کا احساس ہے اور آہنی سیاسی صورتحال کا بھی پتہ ہے، مجھے مستقبل میں ہونے والی تبدیلیوں کا بھی اندازہ ہے۔ اس لئے مجھے قائداعظم کے روشن خیال ایجنڈا کو بھی سامنے رکھنا ہے، قائد عوام کے ترقی پسند عوام کو بھی دیکھنا ہے اور دختر مشرق کے پرامن اور جمہوری پاکستان کے فلسفے کو بھی مدنظر رکھنا ہے۔ پیپلز پارٹی کو نئے انداز سے جدید طریقے کے مطابق منظم کرنا چاہتا ہوں، ہم نے مل کر نئے دور کیلئے ایک نئی پاکستان پیپلز پارٹی پیش کرنی ہے تاکہ موجودہ عہد کے چیلنجز کے مطابق مقابلہ کر سکیں۔
چیئرمین پیپلز پارٹی نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی حکومت ہر محاذ پر ناکام ہوگئی ہے اور ان کے ذاتی مفاد کی وجہ سے پاکستان کے مفادات خطرے میں ہیں اس لئے ہم خاموش نہیں رہ سکتے، میں نے ان کو چار مطالبات دیئے تھے اور وقت بھی دیا مگر ان کو میری بات سمجھ نہیں آئی کیونکہ ہمیشہ ان کو باتیں دیر سے سمجھ آتی ہیں اور تب وقت گزر چکا ہوتا ہے۔ مجھے پتہ تھا کہ یہ حکومت اس ملک کے معصوم اور بے گناہ شہریوں کو تحفظ دینے کے بجائے دہشت گردوں کو تحفظ فراہم کر رہی ہے مگر اس وقت میری بات کسی نے نہیں مانی، آج سپریم کورٹ کے کوئٹہ کمیشن کی رپورٹ آگئی ہے اور وہی باتیں ثابت ہوگئی ہیں جو میں کہتا تھا۔ وزیر داخلہ مستعفی ہونے کے بجائے سپریم کورٹ سمیت سب کو دھمکیاں دے رہے ہیں۔ وزیر داخلہ کالعدم تنظیموں اور ان کے رہنماؤں سے ملاقاتیں کرتے ہیں اور ان کو اجازت دیتے ہیں کہ وہ اسلام آباد میں جلسہ کریں۔ مجھے اب دیکھنا یہ ہے کہ سپریم کورٹ کیا کرتی ہے، کیا وہی ہوتا ہے جو ہمارے وزیراعظم کے ساتھ ہوا تھا یا پھر ان لاڈلوں کیساتھ کوئی اور سلوک کیا جاتا ہے۔ میں چاہتا ہوں کہ اس جمہوری احتساب کے ذریے اس ملک کے معصوم شہریوں کو تحفظ فراہم ہو، دہشت گردی کاخاتمہ ہو اور لوگ خوف سے باہر نکلیں تاکہ معیشت اور معاشرت آگے بڑھ سکے مگر آپ نہیں مانے۔ معیشت ہماری طاقت ہے اور قدرت نے ہمیں سب کچھ دیا مگر ہم پھر بھی غریب ہیں، ہم صرف اپنے 20 فیصد ریسورسز استعمال کر سکتے ہیں، اس لئے کہ معیشت میں جمہوریت، مساوات اور انصاف نہیں، یہ اپنے مسائل میں غریبوں، مزدوروں، کسانوں اور عام آدمی کو حصہ دار بنانے کیلئے تیار نہیں ہیں۔ مگر آپ کو اندازہ نہیں، کہ یہ ساری دولت غریب کے خون، پیسنے اور آنسو کی وجہ سے ہے، اس لئے میں کہتا ہوں کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے افکار کے مطابق ان کی زندگی میں بہتری لائیں، ان کے بچوں کو بھی تعلیم دیں، علاج دیں، تاکہ وہ واپس معیشت میں شامل ہو کر مزید دولت پیدا کر سکیں۔
ان کا کہنا تھا کہ جمہوری معیشت لے آئیں، مساوات اور برابری کا اصول اپنا لیں، میں تو معیشت میں بھی جمہوری انصاف چاہتا ہوں اس لئے نواز شریف سے کہا تھا کہ وہ سی پیک کو متنازع نہ بنائیں تاکہ صوبوں اور لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکے مگر آپ نہیں مانے، ہم دنیا میں تنہاء کھڑے ہیں، ہمارے ملک کا وقار اور عزت خطرے میں ہے اور آپ اپنے ذاتی تعلق نبھانے پر تلے ہوئے ہیں۔ دنیا ہمیں دہشت گرد ملک بنانے کے چکر میں ہے اور آپ نے اپنی کابینہ میں دہشت گردوں کے سہولت کار رکھے ہوئے ہیں۔ یہ آپ کی ذات کا مسئلہ نہیں ہے، خدانخواستہ کل کچھ ہوا تو آپ باہر بھاگ جائیں گے مگر 20 کروڑ عوام کو یہاں رہنا ہے۔ میں کہتا رہا کہ ایک مستقل وزیر خارجہ لے آئیں جو حقیقت میں پاکستان کی نمائندگی کر سکے اور شہید ذوالفقار علی بھٹو کی خارجہ پالیسی پر عمل کر کے دنیا میں ملک کی عزت اور وقار بحال کرے۔ مگر آپ نہیں مانے، میاں صاحب کہتے ہیں کہ ہماری حکومت کا کوئی اسکینڈل نہیں ہے، محترم میاں صاحب، آپ واقعی اتنے سادہ ہیں یا پھر ہم 20 کروڑ عوام کو سادہ سمجھتے ہیں کہ ہم آپ کو سمجھتے ہی نہیں ہیں۔ آپ کے تو اسکینڈل ہی اسکینڈل ہیں، سستی روٹی اسکینڈل، یلو کیب اسکینڈل، دانش اسکول اسکینڈل اور حدیبیہ اسکینڈل سمیت بہت سارے اسکینڈل ہیں۔ مگر میں آج صرف اور صرف دنیا کے سب سے بڑے مالی اسکینڈل پر توجہ دینا چاہتا ہوں، یعنی پانامہ اسکینڈل۔ پاکستان میں کسی سے پوچھیں کہ وزیراعظم کون ہوتا ہے تو لوگ کہتے ہیں پانامہ شریف، اس سے ناملک کی عزت ہے نا آپ کی۔ میاں صاحب، آپ 90 کی دہائی میں میری ماں کے اوپر جھوٹے کیسوں پر کیس بنا رہے تھے تو عین اسی وقت آپ اپنے بچوں کے نام پر آف شور کمپنیز بنا رہے تھے، ہم نے کہا کہ ہم جمہوی انصاف چاہتے ہیں، نا خود تماشہ بنیں، نہ نظام کو تماشہ بنائیں، سینیٹ میں اپوزیشن کا پانامہ بل پاس کر دیا ہے اور اگر آپ نے قومی اسمبلی میں اس بل کو پاس کرنے میں کوئی رکاوٹ ڈالی تو پھر آپ کو اپوزیشن کے احتجاج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ آپ نے احتساب کیلئے اپنے آپ کو خود پیش کیا تھا، تو اب آپ احتساب سے کیوں بھاگ رہے ہیں۔ کمال ہے کہ ایک طرف خود کو احتساب کیلئے پیش کرتے ہیں اور دوسری طرف ہمارا بل بھی پاس نہیں کرتے۔ اس موقع پر انہوں نے یہ شعر بھی پڑا کہ۔۔۔
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں، سامنے آتے بھی نہیں
ان کا کہنا تھا کہ ہم پانامہ بل کے بغیر سپریم کورٹ نہیں جانا چاہتے، ہاں ہمارے تمام اداروں کی تاریخ کوئی شاندار نہیں اور میں کہتا ہو ںکہ ہر ادارے کو اپنا اپنا افریضہ انجام دینا ہوگا، آمروں نے مارشل لاء لگایا لیکن عدلیہ کی تاریخ سب سے خوفناک ہے۔ جب ضیاءالحق نے مارشل لاء لگایا تو بیگم نصرت بھٹو کیس میں اس مارشل لاء کو جائز قرار دیا، پھر شہید ذوالفقار علی بھٹو کا عدالتی قتل کیا، جب شہید محترمہ بینظیر بھٹو کی حکومت کا خاتمہ کیا گیا تو وہ عدالت گئیں، انہیں انصاف نہیں ملا، جب نواز شریف کی اسمبلیاں توڑی گئیں تو اس کو بحال کر دیا گیا اور جب نواز شریف نے خود عدالت پر حملہ کروایا تو عدالت نے اس کو کلین چٹ دیدی۔ کیا سوموٹو کی تلوار صرف ہمارے لئے ہے؟ میں پوچھتا ہوں کہ اصغر خان کیس کا فیصلہ آج تک کیوں نہیں ہوا، میں پوچھتا ہوں کہ شہید ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کا فیصلہ آج تک کیوں نہیں ہوا؟ عدلیہ نے تو ہمارے ساتھ کبھی انصاف نہیں کیا، دیکھنا ہے کہ آج پاکستان کے ساتھ انصاف کرتے ہیں یا نہیں، اس لئے ہم اس بل کو منظور کروا کر عدالت میں جانا چاہتے ہیں۔ میاں صاحب میں نے کہا تھا کہ اپوزیشن کا متفقہ بل مان لیں، ہم جمہوری احتساب چاہتے ہیں مگر آپ نہیں مان رہے ہیں بلکہ الٹا آپ نے فرمایا کہ پاکستان پیپلز پارٹی 90 کی دہائی کی سیاست کرنا چاہتی ہے۔


بلاول بھٹو نے کہا کہ میاں صاحب ہماری ایک پارٹی لیڈر نے آپ کی بیٹی کے خلاف غلط زبان استعمال کی تو شہید محترمہ بے نظیر نے اسے پارٹی سے نکال دیا اور آپ نے اس بد زبان کو اپنا وزیر بنا لیا، آپ کے بھائی شہباز شریف نے میرے والد کو لاہور کی سڑکوں پر گھسیٹنے کی دھمکیاں دیں، میں ان والدین کا بیٹا ہوں جنہوں نے مجھے بڑوں کا احترام کرنا سکھا یا ہے لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ آپ کی سیاست سے اختلاف نہ کروں۔ انہوں نے کہا کہ میاں صاحب آپ چاہتے ہیں کہ آپ کا وزیر حکیم اللہ محسود پر آنسو بہائے اور میں چپ رہوں، آپ کا بھائی دہشت گردوں سے اپیلیں کرتا پھرے کہ ہمیں نہ ماروں اور میں چپ رہوں، ملک عالمی تنہائی میں چلا جائے اور میں چپ رہوں، آپ سی پیک متنازعہ بنا دیں اور میں چپ رہوں، آپ مودی سے دوستی کریں اور میں چپ رہوں، نہیں میں چپ نہیں رہوں گا بلکہ ملک کے لوگوں کے لیے لڑوں گا کیونکہ میں ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر کا وارث ہوں۔
https://ppppunjab.wordpress.com/2016/12/27/%D8%B9%D9%88%D8%A7%D9%85-%D8%AA%DB%8C%D8%A7%D8%B1-%DB%81%D9%88-%D8%AC%D8%A7%D8%A6%DB%8C%DA%BA%D8%8C-%D8%AC%D8%A7%D8%AA%DB%8C-%D8%A7%D9%85%D8%B1%D8%A7%D8%A1-%DA%A9%DB%8C-%D8%A8%D8%A7%D8%AF%D8%B4%D8%A7/

No comments: