Monday, December 30, 2013

ڈیرہ اسماعیل خان جیل ٹوٹنے کی انکوائری رپورٹ پی ٹی آئی کی صوبائی حکومت نے سردخانے میں کیوں ڈالی؟

by Aamir Hussaini
ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر دیوبندی تکفیری طالبان کے حملے اور 253 قیدیوں کو رہا کرائے حانے والے واقعے پر جو انکوائری ٹیم قائم کی گئی تھی اس کی مرتب کردہ رپورٹ سامنے آگئی روزنامہ ڈان کے رپورٹر اسماعیل خان کی اس رپورٹ کے حوالے سے ایک خبر 29 دسمبر 2013ء کی روزنامہ ڈان میں شایع ہوئی اسماعیل خان اس رپورٹ کو “معلوم دشمن کے سامنے لاچار قانون نافذ کرنے والے ادارے،ڈی آئی خان جیل بریک عدم تیاری کا نتیجہ”کا نام دیتی ہے اسماعیل خان کا خیال ہے کہ اس رپورٹ کا بغور مطالعہ کسی بھی آدمی کی ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ پیدا کرنے کے لیے کافی ہے ریڑھ کی ہڈی میں سنساہٹ پیدا کرنے والا وہ خاکہ ہے جو اس رپورٹ میں موجود ہے جس کے مطابق پولیس اور ملٹری کی پوزیشنیں بالکل حملہ آور طالبان کی پکٹوں کے سامنے تھیں جس آسانی کے ساتھ دھشت گردوں نے قانون نافذ کرنے والی ایجنسیوں کو مفلوج کیا،253 قیدی چھڑائے اور پھر اپنی قبائلی پناہ گاہوں میں لوٹ گئے اس سے تو ریاست کی کئی سطحوں پر خطرے کی گھنٹیاں بجنی چاہئیے تھیں ایک تجزیہ نگار کے مطابق یہ حملہ مختصر وقت کے لیے ٹاؤن پر قبضہ تھا لیکن کچھ کرنے کی بجائے یہ رپورٹ شیلف میں رکھ دی گئی ڈیرہ اسماعیل خان جیل پر یہ حملہ 29 اور 30 جولائی کے درمیان رات کو ہوا 20 سے 25 محسود جنگجو،ان کے پنجابی طالبان اور ازبک جنگجو ساتھی جنوبی وزیرستان سے اپنی کمین گاہوں سے نکلے اور راستے میں کسی چیکنگ کے بغیر8:30 رات کو جیل کے سامنے ٹاؤن ہال پہنچ گئے 3 گھنٹے کے اندر عسکریت پسنددوں کی 7 ٹولیوں نے جیل کے اردگرد سڑکوں اور چھتوں پر پوزیشنیں سنبھال لیں اس پکٹنگ کا مقصد سیکورٹی اہل کاروں کی رسائی یا راستوں کو سیل کرنے سے روکنا تھا شہر کے مشرقی اور مغربی حصّوں سے کسی کا جیل کی طرف آنا ناممکن بنادیا گیا تھا اس کے بعد بم دھماکے اور فائرنگ شروع کردی گئی مقصد سیکورٹی اہلکاروں کو کنفیوژ اور عام شہریوں کو ہراساں کرنا تھا جیل تک آنے والے تمام راستوں کو کاٹنے کے بعد جیل کے مرکزی دروازے کو راکٹ اور گرنیڈ مارکر توڑ دیا گیا جیل کے تمام سیل اور بیرک کھولے گئے -253 قیدی آزاد کرالیے گئے شیعہ مذھب سے تعلق رکھنے والے چار قیدیوں کو باقاعدہ شناخت کرنے کے بعد زبح کردیا گیا حملے کے بعد 25 منٹ تک ایک طالب سٹی ڈی ایس پی کا کوڈ نام طارق ٹو استعمال کرے پولیس فریکونسی پر پولیس کو چتاونی دیتا رہا اور شہر کو زمین بوس کرنے کی دھمکی دیتا رہا انکوائری کمیٹی کے مطابق جیل کے اندر تمام کاروائی 45 منٹ میں مکمل ہوئی تاہم جیل کے اردگرد پکٹنگ بنائے لوگ دو گھنٹے تک وہاں رہے حملہ کرنے والی پارٹی دربان روڈ اور آرے روڈ سے جیل تک پہنچی جبکہ کئی ایک جنگجو بنوں روڈ سے فرار ہوئےجبکہ پکٹنگ کرنے والے شہر کے اندر غائب ہوگئے تاہم اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ خاکہ میں فوج اور پولیس کی پوزیشنوں کو جس طرح سے خاکہ میں عین حملہ آوروں کے سامنے دکھایا گیا ہے انھوں نے کیا ایکشن جنگجوؤں کے خلاف لیا؟ 27جولائی کو ڈیرہ اسماعیل خان کی ایڈمنسٹریشن کو انٹیلیجنس رپورٹ ملی تھی کہ طالبان جیل پر حملے کی تیاری کررہے ہیں انکوائری رپورٹ اس حوالے سے کی جانے والی تیاریوں کی خبر بھی دیتی ہے رپورٹ میں پولیس،سول ایڈمنسٹریشن،ایلیٹ فورس کے ضلعی افسران کے خلاف تادیبی کاروائی کرنے کی سفارش کی گئی مگر ایسا کوئی کام نہیں کیا گیا پاکستان آرمی کا کہنا ہے کہ وہ اس واقعے کی اپنی انوسٹی گیشن کررہی ہے رپورٹ میں جنوبی وزیرستان پولیس کی جانب سے عسکریت پسندوں کی نقل وحرکت بارے رپورٹ نہ کرنے کو بھی ایک بڑی وجہ قرار دیا گیا ہے مگر جنوبی وزیرستان کے پولیس حکام کے خلاف کسی کاروائی کی سفارش نہیں کی گئی کیونکہ حملے کے وقت جنوبی وزیرستان آئین کی شق 245 کے تحت آرمی کنٹرول میں تھا اس رپورٹ میں پولیٹکل ایجنٹ کے کردار کو یکسر نظرانداز کردیا گیا جس کو بنوں جیل جملے کی پاداش میں افسر بکار خاص بنادیا گیا تھا ڈی آئی خان جیل پر حملے کی پیشگی اطلاع بارے چیف منسٹر کے پی لاعلمی کا اظہار کرتے ہیں لیکن کمشنر ڈی آئی خان کا 29 جولائی کو چیف منسٹر کے پی ایس او کو لکھا گیا خط موجود ہے جس میں اس حملے کے امکان اور سول ایدمنسٹریشن کی تیاری بارے خبردی گئی تھی انکوائری رپورٹ میں چیف منسٹر کے سٹاف کی کال کا ریکارڑ چیک کرنے یا فورنزک شہادت اکٹھی کرنے کا کوئی تذکرہ نہیں ہے چیف منسٹر کی بے خبری کا سبب یا تویہ ہے کہ انھوں نے صبح بریفنگ نہ لی یا ان کو ان کے پرسنل سٹاف افسر نے خبر ہی نہ دی سب سے اہم بات اس رپورٹ کی یہ ہے کہ انکوائری کمیٹی نے خبیر پختون خوا حکومت کو سفارش کی کہ وہ فوری طور پر وفاقی حکومت کو فاٹا میں عسکریت پسندوں کی تنظیموں کے ہیڈکوارٹرز کو تباہ کرنے کے لیے ٹھوس پالیسی اور اقدامات اٹھانے کو کہے اس رپورٹ کے مطابق تحریک طالبان پاکستان ایک ایسا عفریت ہے جو نہ صرف کے پی معاشرے اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کو تباہ کررہا ہے بلکہ وہ پورے ملک کی بقاکے لیے خطرے کا سبب بنا ہوا ہے اس رپورٹ میں یہ کہا گیا ہے کہ “یہ سوچنا غلط ہوگا کہ افغانستان میں غیرملکی فوجوں کے انخلاء کے بعد حکومتی تنصیبات اور سیکورٹی اہلکاروں پر حملے بند ہوجائیں بلکہ غیرملکی فوجوں کے انخلاء سے طالبان کا نیٹو سے مقابلہ ختم ہوگا جبکہ تحریک طالبان پاکستان فاٹا میں رہے گی تو مطلب صاف ہے کہ پاکستانی ریاست اور عوام پر حملے جاری رھیں گے رپورٹ کہتی ہے کہ سیٹلڈ ایریاز میں چاہے کتنا مضبوط سیکورٹی نظام قائم کرلیا جائے حملے نہیں رک سکتے جب تک دھشت گردوں کی محفوظ جنت کا خاتمہ نہ کیا جائے اس رپورٹ کو پاکستان تحریک انصاف اور جماعت اسلامی پاکستان کی مخلوط حکومت نے ملکر سردخانے کی نظر کیوں کرڈالا؟ اس رپورٹ کی فیصلہ کن سفارشات دونوں جماعتوں کی طالبان کے حوالے سے اب تک اختیار کی جانے والی پالیسی کو ایک حماقت اور پورے پاکستان کے پرامن شہریوں کی جان سے کھیلنے کے مترادف ثابت کرتی ہیں پاکستان تحریک انصاف کے چئیرمین عمران خان اور امیر جماعت اسلامی منور حسن کیا بتاسکتے ہیں کہ ان کی کے پی میں حکومت نے ڈیرہ اسماعیل خان جیل بریک کی انکوائری رپورٹ کو سردخانے کی نذر کیوں کیا؟ آخر اتنی واضح سفارشات کے باوجود وفاقی حکومت کو خط لکھکر فاٹا میں دھشت گرد تنظیموں کے اڈے تباہ کرنے کو کیوں نہیں کیا گیا؟ تحریک طالبان پاکستان اور اس کے جملہ اتحادیوں نے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں جو 5 شیعہ ذبح کئے کیا اس کے بعد بھی ٹی ٹی پی کی بربریت اور درندگی میں کوئی شک رہ جاتا ہے؟ پھر پی ٹی آئی کے چئیرمین اور کے پی حکومت ٹی ٹی پی کا دفاع کس
- See more at: http://lubpak.com/archives/300807?utm_source=twitterfeed&utm_medium=twitter#sthash.9trzcIXA.dpuf

No comments: