Wednesday, October 23, 2013

چند یادیں!بیگم نصرت بھٹو …بشیر ریاض............................................... !!!!!! Long Live Bhuttoism

http://mediacellppp.wordpress.com/
آج 23اکتوبر کو بیگم نصرت بھٹو کی دوسری برسی ہے۔ 23مارچ بیگم نصرت بھٹو کا یوم ولادت ہے۔ 23مارچ 2011ء کو جناب آصف علی زرداری صدر پاکستان نے بیگم نصرت بھٹو کو پاکستان کا اعلیٰ ترین ایوارڈ نشان پاکستان جمہوریت کیلئے ان کی خدمات کے اعتراف میں دیا تھا اور انہیں مادر جمہوریت کا خطاب بھی دیا گیا تھا۔ مادر جمہوریت بیگم نصرت بھٹو کی جمہوری جدوجہد اور عظیم قربانیوں کی داستان عوام کے دلوں پر نقش ہے۔ دوسری برسی کے موقع پر انہیں خراج عقیدت پیش کرنے کے لئے چند یادیں پیش خدمت ہیں۔ 4اپریل1984ء کو ذوالفقار علی بھٹو شہید کی پانچویں برسی میں بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو پہلی مرتبہ ایک ساتھ شریک ہوئیں۔ لندن کی ویمبلے مسجد میں قرآن خوانی کا اہتمام کیا گیا تھا۔ انگلینڈ کے مختلف شہروں سے پارٹی عہدیدار بھی شریک ہوئے اور عظیم لیڈر کے لئے دعائے مغفرت کی گئی۔ برسی کی تقریب کو مقامی انگریزی پریس میں نمایاں طور پر شائع کیا گیا۔ قائد عوام کی پانچویں برسی کے سلسلے میں لندن کے علاقے الرز کورٹ کے بڑے ہال میں جلسہ عام منعقد ہوا۔ تقریب کی یہ خصوصیت تھی کہ اس میں پارٹی کے مرکزی رہنمائوں اور عہدیداروں کے علاوہ انگلینڈ اور یورپ کے ممالک میں پی پی پی کے نمائندوں اور کارکنوں نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ بعض عرب ممالک کے سفارتی نمائندے بھی موجود تھے اور انہوں نے بی بی کی تقریر سنی جس میں بی بی نے اعلان کیا تھا کہ وہ پاکستان میں جمہوریت کی بحالی اور انسانی حقوق کے لئے قائدعوام ذوالفقار علی بھٹو کے مشن پر کاربند رہیں گی۔ اس جلسہ عام کے بعد بیگم صاحبہ پیرس چلی گئیں۔ اپنی علالت کے باوجود بیگم صاحبہ پارٹی کارکنوں سے ملاقات کرتی تھیں اور انہیں اپنی بیٹی شریک چیئرپرسن کا مکمل ساتھ دینے کی تلقین کرتی تھیں تاکہ جنرل ضیاء کی آمریت کا خاتمہ کیاجا سکے۔بیگم نصرت بھٹو کو دانشوروں اور اہل قلم سے خاص لگائو تھا۔ وہ اردو روانی سے بولتی تھیں۔ انگریزی اور اردو اخبارات کامطالعہ کرتی تھیں۔ بیگم صاحبہ مساوات کو سیاسی قوت کے اظہار کا اہم ذریعہ سمجھتی تھیں۔ بی بی نے لندن سے ماہنامہ عمل جاری کیا۔ اسے بہتر بنانے اور مضامین کے سلسلے میں بیگم صاحبہ رہنمائی کرتی تھیں۔ میر مرتضیٰ بھٹو نے 1978ء میں بیگم صاحبہ کی ہدایت پر لندن سے مساوات ویکلی کا اجراء کیا تو بیگم صاحبہ نے اس کی تحسین کی تھی۔ بیگم نصرت بھٹو دردمند ،عظیم انسان تھیں۔ ان کی شخصیت بے داغ تھی۔ پارٹی کی سربراہ کے طور پر کارکنوں کا بہت خیال کرتی تھیں۔ وہ لیڈروں کے بجائے کارکنوں کو زیادہ اہمیت دیتی تھیں، ان کے ذاتی مسائل میں دلچسپی لیتی تھیں اور حتی المقدور مدد کرتی تھیں۔ وہ پارٹی کارکنوں کو اثاثہ سمجھتی تھیں۔ بیگم صاحبہ کا پارٹی کارکنوں کے ساتھ احترام کا پائیدار رشتہ آخر دم تک قائم رہا۔ بیگم صاحبہ کو وہ لوگ پسند نہیں تھے جو پارٹی مفادات کو نقصان پہنچانے کے ذمہ دار تھے۔ بیگم صاحبہ کو یہ شکایت تھی کہ بی بی کے گردوپیش بعض لوگوں نے ان پر جادو کیا ہوا ہے اور وہ غلط مشورے دیتے ہیں۔ جناب ذوالفقار علی بھٹو نے 1969ء میں بیگم نصرت بھٹو سے میرا پہلا تعارف کرایا تھا۔ میں نے بریڈ فورڈ اور برمنگھم میں بھٹو صاحب کے عوامی جلسوں کا انتظام کیا۔ بیگم نصرت بھٹو نے بھٹو صاحب کے ساتھ ان جلسوں میں شرکت کی اور عوام نے ان کا فقید المثال استقبال کیا تھا۔ بیگم بھٹو اس سے بہت متاثر ہوئی تھیں۔ خاتون اول بیگم نصرت بھٹو 1972ء میں لندن آئیں ان کا قیام پاکستانی سفیر میاں ممتاز دولتانہ کے ہاں تھا۔ میری بیگم صاحبہ سے ملاقات ہوئی تو میں نے انہیں بتایا کہ لندن میں ڈان کے نمائندے نسیم احمد نے وزیراعظم کے چیف سیکورٹی افسر سے ملاقات کرائی ہے اور انہوں نے مجھے اس کے ساتھ رابطہ کے لئے کہا ہے۔ بیگم صاحبہ نے مجھے ہدایت کی کہ یہ پولیس والا ہے اور اس پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا ۔ آپ وزیراعظم ہائوس میں صرف مجھ سے رابطہ رکھیں اور ہر ضروری اطلاع مجھے دیا کریں اور میں وزیراعظم کو اس سے آگاہ کروں گی۔بیگم صاحبہ کی اس کے بارے میں رائے درست ثابت ہوئی ،قصوری کے جھوٹے مقدمہ قتل میں اسی چیف سیکورٹی افسر نے اپنے اسی وزیراعظم کے خلاف سلطانی گواہ بن کر لاہور ہائیکورٹ میں شہادت دی تھی جن کے نام پر اس نے ہر کس و ناکس پر دھونس جما رکھی تھی۔ فوجی آمر جنرل ضیاء نے وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے عدالتی قتل کے بعد ان کے خاندان کے خلاف انتقامی کارروائیوں کاسلسلہ جاری رکھا۔ بیگم نصرت بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو مختلف جیلوں میں قید اور گھروں میں نظربند کرنے کی اذیت ہی نہیں دی بلکہ انہیں ہراساں کرنے کیلئے ان کی جائیداد ضبط کرنے کے گھنائونے اقدام سے بھی گریز نہیں کیا۔ انتقام کی وحشیانہ کارروائیاں بھی بیگم نصرت بھٹو کے عزم و استقلال کو کمزور نہ کر سکیں بلکہ انہوں نے فولادی قوت سے ان کا مقابلہ کرکے جنرل ضیا کے مذموم عزائم کو ناکام بنایا۔ وہ ان کے حوصلہ کو پست نہ کر سکا۔ جنرل ضیا ہر کوشش کے باوجود شہید قائدعوام اور ان کے خاندان کے خلاف کرپشن کا کوئی ثبوت پیش نہ کر سکا، اس میں ناکامی کے بعد ضیاء نے انکم ٹیکس کی عدم ادائیگی کا افسانہ تراشا اور کثیر رقم کا جھوٹا کیس بنا کر نوٹس دیا کہ اگر ٹیکس ادا نہ کیا گیا تو ان کی رہائشی جائیداد ضبط کر لی جائے گی۔لندن کے مقتدر اخبار گارڈین نے یہ خبر شائع کی کہ جنرل ضیاء کی فوجی حکومت نے بیگم نصرت بھٹو کو تین لاکھ ستاسی ہزار پونڈ انکم ٹیکس ادا کرنے کا حکم دیاہے اور عدم ادائیگی کی صورت میں کراچی میں ان کی رہائش گاہ 70کلفٹن ضبط کر لی جائے گی۔ایک دوست عرب ملک کے سفیر نے گارڈین کی خبر پڑھ کر مجھ سے رابطہ کیا اور یہ پیش کش کی کہ ان کی حکومت یہ رقم ادا کرے گی تاکہ ذوالفقار علی بھٹو کی بیوہ اور ان کی بیٹی کو گھر سے بے دخل نہ کیا جائے۔ اتفاق سے بیگم صاحبہ آزاد تھیں۔ میں نے انہیں کراچی فون کرکے اس پیش کش سے آگاہ کیا۔ بیگم صاحبہ نے کہاکہ جنرل ضیاء بے شک ہمیں گھر سے نکال دے ہم باہر سڑک پر بیٹھ جائیں گے لیکن اس جھوٹے کیس میں ایک روپیہ بھی نہیں دیں گے۔ آپ ان کا شکریہ ادا کر دیں ۔ میں نے بیگم صاحبہ کے جواب سے انہیں مطلع کر دیا کہ بیگم صاحبہ آپ کی تشویش کے لیے شکرگزار ہیں لیکن پیش کش قبول کرنے سے معذرت کر لی ہے۔ 20ستمبر1996ء کو مرتضیٰ بھٹو کا کراچی میں قتل ہوا۔ اس وقت بیگم صاحبہ لندن میں تھیں اور اس المناک واقعے سے بے خبر تھیں۔ مرتضیٰ کی سالگرہ 18ستمبر کو ہے۔ انہوں نے بیٹے کے لئے تحائف خریدے لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔جس طرح وہ بیٹے کو سفرِ آخرت میں نہ دیکھ سکی تھیں۔ اسی طرح جب بی بی27دسمبر2007ء کو لیاقت باغ راولپنڈی میں شہید کر دی گئیں تب بھی انہیں یہ معلوم نہ تھا کہ ان کی پیاری بیٹی خالق حقیقی سے جا ملی ہیں اور اسی بے خبری کے عالم میں وہ دنیا کو الوداع کہہ کر اپنے پیاروں کے پاس چلی گئیں

No comments: