Wednesday, February 27, 2013

نون لیگ کی مشکل...دیوار پہ دستک…منصور آفاق

Daily Jang
امریکی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین سینٹر رابرٹ مینی ڈیز نے نواز شریف سے ملاقات کرلی اور اس کے بعد نون لیگ کے ترجمان پرویز رشید نے میڈیا پر آکر یہ بیان بھی دے دیا کہ نون لیگ انتہا پسندانہ گروپوں اور فرقہ وارانہ تنظیموں سے سیٹ ایڈجسٹمنٹ نہیں کرے گی اور اسی سے بات جوڑتے ہوئے انہوں نے یہ بھی کہا کہ پنجاب حکومت لشکر جھنگوی کے خلاف کریک ڈاؤن کرنے پر پُر عزم ہے۔ سوال پیدا ہوتا ہے کہ عامر میر کی رپورٹ میں تو نون لیگ کے کالعدم تنظیم سپاہ صحابہ کے ساتھ تعلقات کا انکشاف کیا گیا تھا (اس وقت سپاہ صحابہ نے اپنا نیا نام اہلسنت و الجماعت رکھا ہوا ہے) ان کے متعلق پرویز رشید نے کوئی بات نہیں کی۔ لشکر جھنگوی کے ساتھ نون لیگ کی سیٹ ایڈجسٹمنٹ سے انکار کیا۔ اس اعلانِ انکار پر مجھے اُس برطانوی دوست کی بات یاد آگئی جو لشکرِ جھنگوی کے ساتھ ہمدردی رکھتا ہے، میں نے جب اس سے کہا کہ اب جب تحریک طالبان پاکستان بھی مذاکرات کا نام لے رہی ہیں تولشکرِ جھنگوی کو بھی چاہیے کہ مذاکرات کی طرف آئے۔ حکومت ان کے ساتھ مذاکرات کیلئے تیا ر ہوسکتی ہے، تو اس نے کہا ”میری اطلاع کے مطابق کے پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنااللہ کی وساطت سے لشکرِ جھنگوی کے نون لیگ کے ساتھ مذاکرات ہو رہے ہیں۔ رانا ثنا اللہ اگرچہ لبرل آدمی ہیں، انہیں ایک ٹی وی انٹرویو میں اس کا اقرار کرتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں ہوئی تھی کہ میری بیٹی بہت اچھا ڈانس کرتی ہے مگرلشکر ِ جھنگوی کے ساتھ ان کے روابط کا معاملہ بھی خاصا مشہور ہو چکا ہے۔ اصل حقیقت تو اللہ جانتا ہے مجھے تو صرف یہ معلوم ہے کہ وزیرداخلہ رحمان ملک نے بھی یہاں تک کہہ دیا ہے کہ رانا ثنا اللہ لشکرِ جھنگوی کے سرپرست ہیں اگر وہ ہاتھ اٹھا لیں تولشکرِ جھنگوی کو کنٹرول کیا جا سکتا ہے۔ ایک اطلاع کے مطابق نوازشریف نے سعودی حکومت کے ساتھ وعدہ کیا تھا کہ وہ ایک مخصوص مذہبی جماعت کے پندرہ امیدواروں کے مقابلہ میں اپنے امیدوار نہیں کھڑے کریں گے۔ مگر گذشتہ دنوں سعودی عرب پر پاکستان میں دہشت گردی کے الزام نے نون لیگ کو مشکل میں ڈال دیا ہے۔ سعودی عرب پر پاکستان میں دہشت گردی کرانے کا الزام سب سے پہلے برطانوی اخبار” گارڈین“ میں لگایا گیا تھا اس کے بعد یہ بات میڈیا پر کھل کر ہونے لگی کہ سعودی عرب پاکستان میں دہشت گردوں کی پشت پناہی کر رہا ہے۔ اگرچہ یہ الزام بہت پہلے وکی لیکس نے سعودی عرب پر لگایا تھا کہ اس مقصد کیلئے سالانہ کی فنڈنگ مختلف انداز میں صرف جنوبی پنجاب میں فراہم کررہا ہے لیکن پچھلے کچھ دنوں یہ شور بہت بڑھ گیا ہے۔ سعودیہ کی طرف پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کی وجہ بھی عجیب و غریب بیان کی جارہی ہے۔کہا جارہا ہے کہ پچھلے پانچ سالوں سے سعودیہ پاکستان سے اس لئے ناراض ہے کہ پاکستان کے سربراہ شیعہ مسلک سے تعلق رکھتے ہیں۔ یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ نون لیگ میں بھی شیعہ مسلک سے تعلق رکھنے والے لوگوں کی پذیرائی نہیں کی جاتی کیونکہ نواز شریف پر سعودیہ میں قیام کے دوران وہابیت کے خاصے اثرات مرتب ہوئے ہیں۔ ایک اطلاع کے مطابق نوازشریف سعودیہ کی وساطت سے امریکہ کو مسلسل باور کرا رہے ہیں کہ پاکستان میں نون لیگ کی حکومت امریکہ دوست حکومت ہوگی مگرقرائن یہ کہہ رہے ہیں کہ وہ کامیاب نہیں ہونگے کیونکہ امریکہ اور سعودی عرب کے دوستی میں کئی دراڑیں پڑ چکی ہیں اور امریکہ وہاں تبدیلی کے بارے میں سنجیدگی سے غور کر رہا ہے۔ امریکی صحافی سونیا شاہ نے بہت عرصہ پہلے اپنی کتاب میں لکھا تھا کہ امریکی گریٹر مڈل ایسٹ پلان کے مطابق سعودی عرب ایک غیر فطری ملک ہے سو اس کی تقسیم ضروری ہے۔ منصوبے کے مطابق سرزمین حجاز کو بین الاقوامی متبرک علاقہ قرار دے دیا جائے گا، سعودی عرب صرف ریاض اور اس کے گردو نواح تک محدود کردیا جائے گا۔ اس پلان پر کام کی رفتار تیز کردی گئی ہے سعودی عرب بھی اس امریکی پلاننگ سے بخوبی واقف ہے سو وہ اس کے مطابق اپنے اقدامات کرتا رہتا ہے لیکن اس وقت پاکستان میں دہشت گردی کے حوالے سے دنیا بھر میں جس طرح سعودی عرب کو ٹارگٹ کیا جارہا ہے وہ حیرت انگیز ہے، اس کے بین الاقوامی مقاصد جو بھی ہوں مگر نون لیگ کو اس عمل سے بہت سخت نقصان ہو رہا ہے کیونکہ نون لیگ کی بین الاقوامی سیاست کی عمارت نواز شریف کی سعودیہ کے شاہی خاندان کے ساتھ دوستی کی بنیاد پر کھڑی ہے۔ تازہ ترین اطلاعات کے مطابق لشکر جھنگوی کے سربراہ ملک اسحاق سعودیہ میں عمرے کے علاوہ کئی اہم ملاقاتوں کے بعد جب واپس لاہور پہنچے تو انہیں پنجاب پولیس نے گرفتارکر لیا ہے۔ سعودی دباؤ کے باوجود پنجاب حکومت کا یہ کام صرف اپنی ساکھ کو بچانے کا عمل ہے۔ ملک اسحاق پر اس وقت تک ستر افراد کے قتل کے مقدمات قائم ہوئے چودہ سال مسلسل جیل میں رہتے ہوئے انہوں نے لشکر جھنگوی کی سپہ سالاری کی۔ سری لنکن کرکٹ پر حملے کا الزام بھی انہی پر لگایا جاتا ہے۔ عدالتوں نے انہیں 34مقدمات سے بری کیا ہے۔کہا جاتا ہے کہ وہ کوئی مذہبی بیک گروانڈ نہیں رکھتے نہ ہی کسی مدرسہ سے فارغ التحصیل ہیں مگر بڑے بڑے علمائے کرام انہیں بڑا مرتبہ دیتے ہیں۔گذشتہ جولائی میں انہیں رہائی دی گئی پھر رانا ثنا اللہ کا ذکرِ خیر آگیا۔کہتے ہیں ملک اسحاق کی رہائی میں پنجاب کے وزیر قانون نے اہم کردار ادا کیا تھا۔ اس میں تو کوئی شک نہیں کہ عدلیہ کے ساتھ رانا ثنا اللہ کے وہ مراسم ہیں جوآسمانوں پر بنائے جاتے ہیں۔ سو ابھی ایکسال اور رانا ثنا اللہ کی اہمیت و حیثیت سے ذرہ بھر انکار بھی ممکن نہیں مگر اب رانا صاحب کیلئے سپاہ صحابہ اور لشکر جھنگوی کا زیادہ دیر تک ساتھ دینا ممکن نہیں رہا۔ نون لیگ کو بھی اس مخصوص شدت پسند مذہبی طبقے سے ووٹ لینے کیلئے کوئی نیا راستہ اختیار کرنا پڑے گا اور امریکہ کی خوشنودی کیلئے بھی پھر سے جاتی عمرہ کی سڑک کلٹن ڈرائیو وے سے ملانی پڑے گی کیونکہ اس سلسلے میں ان دنوں ترکی کے اہل اقتدار بھی کوئی اہم کردار ادا نہیں کر سکتے۔ - See more at: http://beta.jang.com.pk/NewsDetail.aspx?ID=68619#sthash.cR3ZEKKt.dpuf

No comments: