Wednesday, September 5, 2012

کوئی عدالت صدر کوطلب نہیں کرسکتی :مجیب الرحمان شامی

معروف تجزیہ نگار اورسینئر صحافی مجیب الرحمن شامی نے کہا ہے کہ صدرآصف علی زرداری کے دو
عہدوں سے متعلق درخواست کی سماعت کے دوران وفاقی حکومت کی جانب سے کبھی کوئی پیش ہوا اور کبھی نہیں ہوا صدر کو براہ راست نوٹس نہیں بھیجا جا سکتا اور نہ ہی کوئی عدالت انہیں طلب کر نے کا حق رکھتی ہے۔پارلیمانی نظام میں صدر کا ہر کام وزیر اعظم کے مشورے پر ہوتا ہے اس لیے عدالت صدر کے بارے میں بات نہیں کرسکتی۔دنیا نیوز کے پر وگرام” نقطہ نظر“میں گفتگو کر تے ہوئے مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ صدر کو دو عہدے رکھنے کا آئینی اختیار نہیں ہے وہ سر بر اہ نہیں رہ سکتے اور ایوا ن صدر میں پارٹی کی سیاست نہیں ہو سکتی کیونکہ صدر وفاق کی علامت ہوتا ہے اس لیے صدر کوپارٹی کی سیاست سے با لا رہنا چاہیے۔ عدالت نے اس کیس میں 29جون کو اپنے فیصلے میں کہا کہ صدر پر لازم ہے اور اس پر پوری قوت سے عمل ہوگا۔پانچ ستمبر تک عدالت کے فیصلے پر عملدرآمد نہیں ہوا تو عدالت میں فل بنچ بیٹھ گیا۔آج کی سماعت میں وفاقی حکومت کی جانب سے وسیم سجاد نے کہا ہے وہ جواب داخل کریں گے جس کہ بعد اس کی سماعت 14ستمبر تک ملتوی ہوگئی ہے۔مجیب الرحمن شامی نے کہاصدر کے دو عہدوں کے خلاف سماعت میں سب سے پہلا نقطہ یہ ہوگا کے یہ کیس قابل سماعت ہے یا نہیں۔وسیم سجاد کا مﺅقف ہو گا کہ یہ کیس قابل سماعت نہیں ہے۔کیو نکہ آئینی طور پر عدالت کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ صدر کو نو ٹس جاری کر ے یاصدر کو طلب کر ے۔صدر کے خلاف کاروائی کر نے کا حق صرف پارلیمنٹ کو ہے ۔ انہوں نے کہا کہ صدر کے دو عہدوں کے خلاف فیصلے کے بعد سندھ اسمبلی اسی فیصلے کے خلاف قرارد اد منظور ہوئی جس میں کہا گیا تھا کہ صدر کی سر گر میاں جمہوریت اور مفاہمت کو مضبوط کرنے کے لیے ہیں ۔اس لیے ان پر اعترا ض نہیں کیا جا سکتاجبکہ اس وقت جمہوریت کو صدر آصف علی زرداری کے اس رویے کی ضرورت ہے۔ اس قرارداد کو جب سندھ اسمبلی میں لایا گیا تو مسلم لیگ ق ،مسلم لیگ فنکشنل اور ایم کیو ایم کے ارکان واک آﺅٹ کر گئے ۔اے این پی اور پیپلز پارٹی نے اس فیصلے کو مستر د کر دیا۔صدر آصف علی زرداری نے اس فیصلے پر عمل نہیں کیااور نہ ہی نوٹس لیا۔ہائی کورٹ صدر مملکت کے معاملے میں بے اختیار ہے۔یہ اختیار ہے پارلیمنٹ کے پاس ہے ۔اگر صدر آصف علی زرداری پارٹی کے شریک چیئر مین ہو ں یا نہ ہو ں۔ان کے اختیارات وہ رہیں گے۔صدر آصف علی زرداری کی طاقت کو چھینا نہیںجا سکتااور نہ ہی ان کی طاقت عہدے کی مرہو ن منت ہے۔مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ یہ وہ سیاسی حقیقتیں ہیں جو ہمیں سمجھنی چاہیں۔ صوبوں کی تقسیم سے متعلق ایک سوال پرانہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن کا مﺅقف ہے کہ صوبوں کی تشکیل سے متعلق کمیشن کے سر بر اہ سپریم کورٹ کے ایک ریٹائرڈ جج کو بننا چاہیے۔اس وقت سینیٹر فرحت اللہ بابر اس کمیشن کے چیئر مین بن گئے ہیں۔اب سوال یہ ہے کہ کسی سیاسی کارکن کے بجائے کسی جج کو کمیشن کا چیئر مین لگانے کا کیا فائد ہ ہوگا۔چیئر مین کے پاس ویٹو پاور نہیں ہے جو ارکان کی اکثریت فیصلہ کرے گی وہ ہی فیصلہ حتمی ہوگا۔مسلم لیگ ن کا کہنا ہے کہ اس کمیشن میں ہماری نمائندگی بڑھائی جائے جس میں وزن ہے کیو نکہ مسلم لیگ ن ایک بڑی جماعت ہے اس لیے ان کی نمائندگی بڑھائی جا سکتی ہے اور وزیر قانون نے بھی ن لیگ کو یقین دہائی کرائی ہے کہ وہ اس بارے میں بات چیت کر نے کو تیار ہیں۔مجیب الرحمن شامی نے کہا کہ جب پنجاب اسمبلی نے صوبے کو دو صوبوں میں تقسیم کر نے کے لیے قرار داد منظور کی تھی تواس کی وجہ سے مسلم لیگ ن اور پنجاب میں رہنے والوں کے لیے پیچیدہ صورتحال پیدا ہوگئی جبکہ یہ قرار داد اپنے ہاتھ کاٹ کر وفاق کے سامنے پیش کر نے کے مترادف ہے کیونکہ آئین کا آرٹیکل 239 صوبائی اسمبلی کی دو تہائی اکثریت کو ایسے کاموںکی اجازت دیتاہے۔ صوبوں کی تقسیم سے متعلق قرار دا دقومی اسمبلی اورسینٹ سے پنجاب اسمبلی میں واپس بھی آسکتی ہے لیکن اگر وفاقی حکومت شرارت کرنا چاہے تو وہ قانونی طور پر ایسا کر سکتی ہے۔وفاقی حکومت کہہ سکتی ہے کہ پنجاب حکومت نے قرار داد منظور کی ہوئی ہے۔لیکن صوبے شرارت کی بنیا د پر نہیں بلکہ مفاہمت کی بنیاد پر ہو نے چاہیے۔ایک سوال پر انہوںنے کہا کہ کرپشن ایک خفیہ ٹیکس ہے جس کو ادا کر نا پڑتاہے۔کرپشن پراجیکٹ کی قیمت بڑھا دیتی ہے۔ملک میں ایک سال کا خسارہ سترہ سو انسٹھ ارب روپے سالانہ خسارہ ہے۔اگر معیشت کا یہی حال رہا تو یہ گاڑی کتنے دن چلے گی۔حکومتوں کی پالیسیاں تبدیل کر نے سے بھی معیشت کو خسارہ ہوتاہے۔چوہدری پرویز الہی کے پروجیکٹس آج بندپڑے ہیں۔اگر خدانخواستہ حکومت بدل جائے تو اس وقت جار ی پراجیکٹس کا کیا حال ہوگا۔تمام ترقیاتی منصوبے صوبائی پلاننگ کمیشن کی اجازت سے بننے چاہیے اورسیاسی جماعتوں میں اتنا تدبر ہو ناچاہیے کہ وہ ایک دوسرے کے پر اجیکٹس بند نہ کریں۔

No comments: